مذہبی
مذاکرہـــــ اصول وآداب
دنیا کی موجودہ صورتِ حال
گذشتہ ادوار سے بالکل مختلف ہے، آج دنیا کے اکثر حصوں میں الگ الگ بولی
بولنے والے متضاد جادئہ فکر رکھنے والے، مختلف طرزِ زندگی اختیار کرنے
والے اور جدا جدا راہِ عمل اپنانے والے مل جل کر بستے ہیں، دنیا میں
چین وسکون کے ساتھ جینے کے لیے ملی جلی آبادی
میں بسنے والے انسانوں سے راہ ورسم کو استوار رکھنا ازبس ضروری ہوتا
ہے؛ کیوں کہ بسا اوقات نفرت وتشدد کا ماحول صرف دنیوی شب وروز
کو ہی مکدر نہیں کرتا ہے؛ بلکہ دینی رجحانات وخیالات
پر بھی برا اثر پڑتا ہے، پھر ہوتا یہ ہے کہ امن وسکون کا باغ وبہار
رسہ کشی وتناؤ کا شکار ہوکر ویران ہوجاتا ہے۔
اس صورتِ حال سے پہلے بھی انسان
دوچار تھا؛ مگر محدود پیمانے پر، جب سے مشینی دور کا آغاز ہوا
اور دنیا کی پھیلی ہوئی آبادی سمٹ کر ایک
آئینہ میں نظر آنے لگی تو ہرخوشی وناخوشی بین
الاقوامی بن گئی، اب ایک جگہ کا دکھ ہر جگہ محسوس کیا
جاسکتا ہے اور ایک جگہ کی خوشی ہر حصہ میں جشن کا ماحول
بنادیتی ہے؛ لیکن کرب ودرد کی داستان کے مقابلہ میں
خوشی ومسرت کی خبریں کم ہوتی ہیں؛ اس لیے پوری
دنیا ایک درد اور ایک ہی کرب کی شکار معلوم ہورہی
ہے، جس سے ناخوش گوار ماحول ہرمکان ومکین پر چھاچکا ہے، اس کی کڑواہٹ
کو کم کرنے یا مٹانے میں مذاکرات وباہمی تبادلہٴ خیال
کو خاص طور پر کلیدی کردار ادا کرنے والا اور اساسی میز
سمجھا جانے لگا ہے۔ اس میں بہت حد تک تیزی آئی ہے،
کچھ تو اسلام دشمنوں، خاص طور پر کیتھولک کلیسا کی سوچی
سمجھی سازش کو بھی اس کے کردار میں دخل رہا ہے؛ اس لیے کسی
بھی قسم کا مذاکرہ منعقد کرتے وقت ایک مسلمان کو بہت ہی حساس
رہنے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہوکہ دشمنان اسلام کی دسیسہ
کاری کی نذر اسلام کا دعوتی نظام ہوجائے اوراسی میں
الجھ کر اصل مقصد سے دور ہوتے چلے جائیں، نیز کہیں ایسا
نہ ہو کہ اپنا تشخص اور اپنی شناخت ہی سے ہاتھ دھونا پڑجائے۔
افہام وتفہیم کے بجائے خود مرعوبیت کا شکار ہوکر خرمنِ اسلام کو تاخت
وتاراج کرنے کی جدوجہد شروع کریں؛ اللہ تعالیٰ ان سب سے
مسلمانوں کو محفوظ رکھے، آمین!
پوری حساسیت، بے دار مغزی،
شریعتِ اسلام سے بے پناہ محبت ولگاؤ کے جذبہ اور دینِ اسلام کی
حقانیت و صدقات کا بھرپور یقین رکھ کر اس میدانِ خاردار میں
ایک مومن کو قدم رکھنا چاہیے، تب ہی نتیجہ خیز اور
امید افزا فضا استوار ہوپائے گی۔
مذاکرہ سے مقصود دوسروں کو مطمئن کرنا اور
ان کے ذہنی خلجان کو دور کرنا ہوتا ہے،اسی کو افہام وتفہیم بھی
کہتے ہیں، اسی کے قریب قریب مناظرہ بھی ہے، جس میں
مخاطب کے اعتراضات کا جواب دیا جاتا ہے،کوئی ضروری نہیں
ذہنی طور پر اسے اطمینان بھی حاصل ہوجائے، مناظرہ بھی بعض
اوقات مفید ثابت ہوتا ہے، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے ایک
ضروری ومضبوط حربہ ہے، ہمارے بزرگوں نے بھی اس میدان میں
قدم رکھ کر اسلام اور تعلیماتِ اسلام کو خوب سربلند کیاہے۔ ان
کے مناظرانہ کارنامے بہت دنوں تک اور بہت دور تک گلی کوچوں تک میں
لوگوں کے چرچے کا موضوع بنے رہے۔ اب چرچہ کم ہوکر کتابوں کی زینت
ہیں؛ لیکن کچھ مدت پہلے سے دیکھا رہا ہے کہ میدانِ عمل کا
یہ سنہرا باب ”مناظرہ“ میدانِ مباحثہ کا ادبی وخطابی
اکھاڑہ ہوکر رہ گیاہے؛ بلکہ باطل تشدد کو بھڑکانے میں مددگار ثابت
ہورہا ہے؛ اس لیے اس کے بجائے مذاکرہ وباہمی تبادلہٴ خیال
کا طریقہ اختیار کیا جانے لگا، اس سے اسلام کو کتنا نفع ہوا اور
کتنا نقصان ہوا، اس سے بحث نہیں بظاہر اتنا فائدہ نظر آتا ہے کہ بیمار
سماج کی غلط فہمی سے بہت حد تک ذہن صاف ہوجاتا ہے اور دل حقیقت
کو قبول کرلیتا ہے، خواہ اس کا برملا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ باقی
رہ جائے۔
اسلامی تاریخ سے واقف حضرات
سے یہ مخفی نہیں ہے کہ اسلام کی نشر واشاعت میں
افہام وتفہیم پر کافی زوردیاگیا ہے، نزولِ وحی کے
بعد سے ہی یہ سلسلہ شروع ہوگیا، کفارِ مکہ بالخصوص خاندانِ نبوت
کے مختلف قبائل وافراد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفت
وشنید، پھر اسلام لانے والوں کے سامنے اسلام کی دعوت، نتیجتاً
لوگوں کا پس وپیش کرنا، سب مذاکرہ کے وسیع مفہوم کے تحت آتا ہے، صلح
حدیبیہ کے موقع پر قبائلِ عرب جن خدشات میں مبتلا تھے، ان خدشات
کو عروہ بن مسعود ثقفی ودیگر حضرات نے باہمی مذاکرہ میں
فصیح وبلیغ لب ولہجہ میں بیان کیا تھا، مذاکرہ کی
مشروعیت پر اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے، امام بخاری نے طویل حدیث
ذکر کی ہے، عروہ کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
أَیْ
مُحَمَّدُ! أَرَأَیْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِکَ، ہَلْ سَمِعْتَ
بِأَحَدٍ مِنَ العَرَبِ اجْتَاحَ أَھْلَہُ قَبْلَکَ، وَإِنْ تَکُنِ الأُخْرَی،
فَإِنِّی وَاللہِ لَأَرَی وُجُوھًا، وَإِنِّی لَأَرَی
أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِیقًا أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوکَ
الخ․
(بخاری شریف: ۱/۳۷۸، کتاب الشروط، باب الشروط
فی الجہاد)
(اے محمد! ذرا بتائیے اگر آپ نے اپنی
قوم کو نیست ونابود کرہی دیا تو آپ نے کسی عربی کے
بارے میں سنا ہے کہ اس نے آپ سے پہلے اپنی اصل کو ہی کریددیاہو،
اگر صورتِ حال دوسری ہو تو بخدا میں آپ کے پاس مختلف قبائل کے افراد دیکھ
رہا ہوں یہ لوگ فرار اور آپ کو چھوڑ دینے کی ذہنیت کے
حامل معلوم ہوتے ہیں)
عام الوفود میں یمن کے نصاریٰ
کی جماعت دربارِ رسالت میں حاضر ہوئی جو کتابوں میں
”وفدنجران“ سے معروف ومشہور ہے۔ یہ وفد اہل لوگوں کا تھا، اس نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت طویل مذاکرہ ومکالمہ کیا
ہے، انھوں نے مسجد نبوی میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کے بجائے بیت
اللحم کا استقبال کرکے اپنی عبادت بھی ادا کی ہے، اللہ کے رسول
نے منع کرنے سے صحابہ کو روک دیا؛ کیوں کہ ان کی شریعت میں
ایسا ہی تھا۔ (فقہ السیرة للغزالی:۴۵۹-۴۶۳)
ان مذاکرات کا سلسلہ بعد کے ادوار میں
بھی جاری رہا اور ہنوز جاری ہے۔ غور کرنے کی ضرورت
ہے کہ ایک مسلمان کودوسروں سے کن موضوعات پر مذاکرہ کرنے کی گنجائش
ہے، نیز ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے کہ مذاکرہ اپنے صحیح
اور اصلی مقصد تک پہنچ سکے، اسی طرح کیا طریقہ کار ہو جو
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام اور اس کی پاکیزہ تعلیمات
سے مانوس کرکے باطن کو جھنجھوڑسکے۔
مذاکرہ کے موضوعات
چوں کہ مذاکرہ کا مقصد دعوت وتبلیغ
کی فضاء ہموار کرنا، اسلام واسلامی احکام کے تئیں پائے جانے
والے خدشات کا ازالہ، غلط فہمی کی وجہ سے پیداہونے والے حالات
کا سازگار بنانا اور حق کی صحیح تفہیم ودل نشیں تشریح
ہے؛ اس لیے اس کا موضوع سماجی وسیاسی کے علاوہ مذہبی
بھی ہوسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفار
ومشرکین سے جو مکالمات ہوئے ہیں، ان میں کفار کی نیت
کچھ بھی ہو؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت
بہرحال افہام وتفہیم کے لیے ہی تھی۔ ایک موقع
پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی عجلت کے ساتھ ایسی
مجلس میں پہنچے، جس میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ،
ابوسفیان بن حرب، نضربن الحارث، ابوالبختری بن ہشام، اسود بن مطلب بن
اسد، زمعہ بن اسود، ابوجہل، امیہ بن خلف کے علاوہ اور بھی شرفائے قریش
جمع تھے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاکرہ کی
دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی معلوم
ہوا فوراً ہی مجلس میں رونق افروز ہوئے، ان حضرات نے اپنی بات
رکھی:
”آپ نے اپنی اس دعوت سے جماعتوں میں
تفرقہ ڈال دیا ہے، سب کی آرزوؤں پر پانی پھیردیا،
باپ ودادا والا موروثی دین کا کچا چٹھا نکال دیا ہے۔ آخر
کیا مقصد ہے؟ اگر مال کا حصول مقصود ہے تو ہم اتنا مال جمع کیے دیتے
ہیں کہ آپ سب سے زیادہ مالدار تصور کیے جائیں، اگر سیادت
وقیادت کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو قائد وحاکم ماننے کے لیے تیار
ہیں، اگر کسی حسین وجمیل خاتون سے شادی چاہیے
تو ہم اس کے لیے کوشش کرتے ہیں، یا اگر کسی قسم کی
بیماری کا یہ اثر ہے تو ہم سب مل کر علاج کرادیتے ہیں“۔
گویا کہ ان سرداروں کو دعوتِ اسلام
کی بابت کچھ غلط فہمیاں واقعتا تھیں یا انھوں نے بناوٹی
انداز میں ظاہر کیاتھا۔ اللہ کے رسول نے ان کی غلط فہمی
کا ازالہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَا بِی
مَا تَقُولُونَ، مَا جِئْتُ بِمَا جِئْتُکُمْ بِہِ أَطْلُبُ أَمْوَالَکُمْ، وَلَا
الشَّرَفَ فِیکُمْ، وَلَا الْمُلْکَ عَلَیْکُمْ، وَلَکِنَّ اللہَ
بَعَثَنِی إلَیْکُمْ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَیَّ کِتَابًا،
وَأَمَرَنِی أَنْ أَکُونَ لَکُمْ بَشِیرًا وَنَذِیرًا (سیرة ابن ہشام:۱/۲۳۶،
مطبوعہ:دارالخیر)
ترجمہ: جو کچھ آپ لوگوں نے کہا ان میں
سے کوئی بات نہیں ہے، میں آپ حضرات سے نہ تو مال کا مطالبہ کرنے
کے لیے حاضرہوا اور نہ ہی شرافت وسیادت مطلوب ہے؛ لیکن میں
آپ کے پاس رسول بناکر بھیجا گیا ہوں، مجھ پر کتاب نازل ہوئی،
مجھے اللہ نے حکم فرمایا ہے کہ میں آپ کے لیے جنت کی
بشارت دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بنوں۔
اس طرح کے اور بھی مکالمات ہیں
جو مذہبی مذاکرہ کے جوازپر دلالت کرتے ہیں؛لیکن مذہبی
مذاکرہ ایک خاردار وادی ہے یہاں بڑی احتیاط سے چلنے
کی ضرورت ہے۔ نہ تو ہرکس وناکس کو اس میں گھسنے کی اجازت
ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہر وقت صرف مذاکرہ مذاکرہ کا نعرہ لگاکر اصل دعوتی
مشن سے کنارہ کشی اختیار کی جاسکتی ہے؛ اس لیے:
(الف) ضروری ہے کہ مذاکرہ کرنے والے
افراد پہلے تو دین اسلام کے ہرگوشہ سے پورے طور پر بصیرت کے ساتھ
مطمئن ہوں ورنہ جس کو خود شرح صدر نہ ہو، وہ دوسروں کو کیا اطمینان
دلاسکتا ہے، ”خفتہ را خفتہ کے کند بیدار“ بلکہ خدانخواستہ دوسری جانب
کا پلہ بھاری پڑگیا اور شکوک وشبہات سے اس کے ذہن کو الجھادیاگیا
تو مذاکرہ کا فائدہ تو کجا اس کے مضراثرات سماج میں پھیل جائیں
گے۔
(ب) نیز یہ بھی ضروری
ہے کہ جن حضرات سے مذاکرہ ہورہا ہے، ان کے مابین جن کتابوں کو مقدس سمجھاجاتاہے،
ان کے اس حصے پر کم از کم قابویافتہ ہو جو ہمارے دین اور ہماری
شریعت کے مزاج ومذاق سے ہم آہنگ ہو؛ بلکہ دین وایمان کی
ان سے تائید ہورہی ہوتاکہ وقت پڑنے پر ان کو پیش کیا
جاسکے؛ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہر طرح کی تحریف کے
باوجود ابھی بھی ان کتابوں میں ایک معتد بہ حصہ ایسا
ضرور پایاجاتا ہے، جو اسلام کی تائید کے لیے کافی
ہے، حتی کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا،رامائن، وید
وغیرہ میں بہت سے اشلوک ودفعات اس بابت موجود ہیں۔
(ج) یہ بھی لازم ہے کہ مذاکرہ
صرف رسمی ورواجی نوعیت کا نہ ہو اور نہ ہی خودغرضی
وخودنمائی کے داعیہ سے ہو، ورنہ دین کے بجائے دنیا بن کر
رہ جائے گا۔ آخر اسی ہندوستان میں کچھ صدی پہلے ابوالفضل
وفیضی، عبداللہ سلطان پوری وملا مبارک جیسے علماء کے بحث
ومباحثہ اور اظہارِ برتری، ریا ونمائش نے اسلام کے خرمن کو خاکستر
کرکے ”دینِ الٰہی“ کے نام سے ناپاک نظام کو جنم دیا تھا،
جس کی اصلاح وتجدید کے لیے حضرت مجدد الف ثانی علیہ
الرحمہ اور ان کے رفقا کو کتنی جانفشانی برداشت کرنی پڑی
اور ایک طویل عرصے کے بعد ”عالمگیر اورنگ زیب“ کے زمانے میں
صحیح اسلام کی ضیاپاشی ہوسکی؛ اس لیے نیک
جذبات، مکمل وثوق واعتماد، یقین کاملِ، مضبوط اعتقاد اور عمل وکردار
سے لیس ہوکر اس میں شامل ہونے سے بامقصد اور موٴثر مذاکرہ
وجودپذیر ہوسکے گا۔
دوسروں پر تنقید کے حدود
مشرکانہ عمل اور معصیت کے کام سے ایک
مومن کے لیے سمجھوتہ تو ممکن نہیں؛ بلکہ مذاکرہ کا مقصد ہی ان
کو ایسے اعمال سے باز رکھنا اور مثالی ماحول برپا کرنا ہے؛ البتہ دعوتی
اصول وضوابط کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
(۱) دعوت کا کام احکام سنانا ہی
نہیں؛ بلکہ ان پر عمل کرنے کی طرف بلانا ہے، لہٰذا بلانے کے
تمام اصول وضوابط کو اپنایا جائے گا۔ بلانا اسی وقت موثر ہوتا
ہے؛ جبکہ مخاطب کو بلانے کے اندازسے وحشت اورنفرت نہ ہو، نیز اس میں
استہزاء و تمسخر کا پہلو نہ ہو، ورنہ اولِ وہلہ میں ہی مخاطب بدک جائے
گا۔
پیغمبرانہ دعوت کی یہی
شان تھی، لوگوں کی طرف سے خواہ کتنا بھی مذاق اڑایاگیا،
دین ومذہب پر فقرے کسے گئے، ذاتیات تک پر حملہ کیاگیا،
قومِ نوح اپنے پیغمبر کو خطاب کرکے کہہ رہی ہے: انَّا
لَنَراکَ فِيْ ضَلالٍ مُّبِیْن (ہم آپ کو کھلی ہوئی گمراہی میں
پاتے ہیں) مگر پیغمبر کا جواب بس یوں ہوتا ہے: یٰقَوْمِ
لَیْسَ بِيْ ضَلاَلَةٌ ولکِنّي رَسُولٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالمِیْنَ (میرے بھائیو! مجھ میں
کوئی گمراہی نہیں، میں تو رب العالمین کا رسول
وقاصد ہوں)
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم
کا انداز کتنا دل آزار ہے: انَّا لَنَرَاکَ فِيْ سَفَاھَةٍ وَانَّا
لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِینَ (ہم تو آپ کو بیوقوف سمجھتے ہیں
اور ہمارا خیال ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں) حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے ساتھ تو فرعون اور اس کی قوم نے حد کردی، فرعون
کہتا ہے: کون رب العالمین؟ اللہ کے پیغمبر نے جب رب السماوات والارض
کہہ کر اپنے موقف کا اظہار کیا تو فرعون نے استہزاء کرتے ہوئے کہا: ألَا
تَسْمَعُونَ (لوگو! سن رہے ہو) کیسی بے عقلی کی بات کررہے
ہیں، حضرت موسیٰ نے اس کا کوئی بُرا اثر نہیں لیااور
اتنا کہا: رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمُ الْأَوَّلِیْنَ (تمہارے اورتمہارے باپ داداؤں کا رب وہی
ہے) تو فرعون جھلاکر کہتا ہے: انَّ رسولَکُمُ الَّذِيْ أرسِلَ الَیْکُم لَمَجْنُوْن (تمہارا رسول تو مجنون ودیوانہ
معلوم ہوتا ہے) لیکن پیغمبراُن سب سے بے پرواہ ہوکر کہہ رہے ہیں:
رَبُّ الْمشْرِقِ وَالمَغْرِب وَمَا بَیْنَھُمَا
انْ کُنْتُم تَعَقِلُوْن (وہ رب مشرق ومغرب کا ہے اور جوکچھ ان کے درمیان ہے اگر تم کچھ عقل
رکھتے ہو)
خاتم الانبیاء کو دعوت کی راہ
میں کتنا کچھ کہاگیا! ساحر ودیوانہ کے لقب سے توکبھی شاعر
وکاہن سے یاد کیاگیا؛ مگر آپ نے کبھی استہزاء کا جواب
استہزاء سے نہیں؛ بلکہ پیار ومحبت سے دیا۔ استہزاء وتمسخر
کا رد عمل بعض اوقات بہت مضر ثابت ہوتا ہے اور فتنہ کاباب کھول دیتا ہے۔
قرآن کریم نے ایسے دل آزار انداز اختیار کرنے سے سختی سے
منع کیا ہے:
وَلاَ
تَسُبُّواْ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ فَیَسُبُّواْ
اللہَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْم (الأنعام: ۱۰۸)
(اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی
یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو
بے ادبی سے بدون سمجھے)
اس آیت کے تحت مشہور مفسر جصاص
لکھتے ہیں:
اس میں اس پر دلیل ہے کہ اہلِ
حق پر ضروری ہے کہ ان بے وقوفوں کو برا بھلا کہنے سے باز رہیں جو
ردِعمل کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے پر بہت جلداتر آتے ہیں؛ کیوں
کہ یہ معصیت پر برانگیختہ کرنے کے مرادف ہے۔(احکام القرآن
۳۰/۹ مطبوعہ: دارالفکر)
مشہور مالکی مفسر علامہ قرطبی
لکھتے ہیں:
علماء نے فرمایا: اس کا حکم اس امت
میں ہروقت باقی ہے، پس جب کافر قوت میں ہو اور خوف ہو کہ وہ
اسلام یا نبی علیہ السلام یا اللہ تعالیٰ کو
برابھلا کہے گا تو مسلمانوں کے لیے جائزنہیں کہ ان کے صلیبوں، دین،
عبادت گاہوں کو برابھلا کہیں اور نہ ان چیزوں سے تعرض کریں جو
مذکورہ برائی تک پہنچائے؛ اس لیے کہ یہ معصیت پر برانگیختہ
کرنے کے مرادف ہے۔(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی: ۴/۲۸
سورئہ انعام)
(۲) قرآن کریم نے دعوت کے
اصول میں ”حکمت“ پر خاص طور پر توجہ دی ہے، حکمت کی تفسیر
وتشریح کا حاصل یہ ہے کہ جو بات کہی جارہی ہے، وہ مبنی
برحقیقت ہو اور انداز ایسا اختیار کیا جائے جو دل میں
اتر کر قبول کرنے کی اپیل کرے۔ دل میں اترنے کے لیے
حالات کے تقاضوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے، ہر ایک سے
گفتگو کا انداز یکساں نہیں ہوگا، مذاکرہ میں حصہ لینے
والے بعض افراد آخرت کے قائل اوروجودِ صانع کے معترف ہوں گے تو بعض خالص مادہ
پرست، آخرت کے تصور سے بے گانہ، صانع وخالق کے وجود ووجوب کے منکرہوں گے، مزاج
ومذاق کے اعتبار سے بھی مختلف ہوں گے، بعض بے جا تشدد وتعصب کے گھناؤنے مرض
میں مبتلا، تو بعض سادگی ونرمی کے لبادہ پوش ہوں گے۔
بہرحال پہلے تقاضائے وقت اور اشخاص وافراد
کے احوال سے آشنا ہونا ضروری ہے، پھر جہاں تشدد کی ضرورت ہوتو تشدد کو
بروئے کار لایا جائے؛ لیکن جہاں نرمی سے کام چل رہا ہو تو نرمی
برتی جائے؛ بلکہ جہاں تک ہوسکے تشدد کے بجائے سنجیدہ وشائستہ لب
ولہجہ، محبت سے بھرا انداز اختیار کیا جائے، قرآنِ کریم نے
مکالمہ کے موقع پر خاص طور پر ”احسن طریق“ اختیار کرنے کی تلقین
کی ہے: وَلَاتُجَادِلُوا أَھْلَ الْکِتَابِ
الّا بالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَن (اہلِ کتاب سے مجادلہ احسن انداز میں کرو) حضرت موسیٰ
وحضرت ہارون علیہما السلام کو جب فرعون کے پاس بھیجا گیا تو خاص
طور پر حکم دیا گیا: قُوْلاَ لَہ قَوْلاً لَیِّنًا (ان سے بات کرنے میں نرم گفتاری
اختیار کیجیے)
اسی شیریں انداز سے
اسلام کا دائرہ وسیع ہوا۔ حلقہ بگوش اسلام کے حالات کا اگر سرسری
جائزہ بھی لیاجائے تو یہ بات بخوبی واضح ہوگی کہ ان
کو متاثر کرنے میں سختی سے زیادہ شائستگی وحرفِ شریں
نے کردار اداکیاہے۔ قرآنِ کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا خاص وصف امتیاز، نرم گفتاری اور کریمانہ اخلاق کو بیان
کیا ہے۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ
یک گونہ تشدد کو بھی راہ نہ دیا جائے؛ بلکہ بوقت ضرورت کچھ سخت
کلام بھی اپنا کام کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے عروہ بن مسعود ثقفی ودیگر سردارانِ حجاز سے صلح حدیبیہ
کے موقع پر جو تبادلہٴ خیال کیا، ان میں اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
آخر میں یہ بھی فرمایا:
وَإِنْ ھُمْ
أَبَوْا، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَأُقَاتِلَنَّھُمْ عَلَی
أَمْرِی ھَذَا حَتَّی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی، وَلَیُنْفِذَنَّ
اللہُ أَمْرَہُ (بخاری:۱/۳۷۸، کتاب الشروط، باب الشروط فی
الجہاد)
ترجمہ: اگر وہ حضرات انکار کرتے ہیں
تو خداکی قسم میں، ان سے اس امر پر قتال کروں گا؛ تاآں کہ میری
گردن الگ ہوجائے یا اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافد وغالب کردے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر تیکھا
انداز غیرمناسب ہے تو دبادبا لب ولہجہ اور مرعوبانہ گفتار بھی بعض
اوقات مناسب نہیں کہ مخالفین جری ہوجائیں اور سمجھنے لگیں
کہ مسلمانوں کے پاس شاید ٹھوس اقدام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
(۳) تیسری اہم پیش
رفت ”موعظتِ حسنہ“ کے ساتھ ہونی چاہیے، اس کا سادا سا مفہوم ہے کہ
مخاطبین کو باور کروانے کی حتی الامکان کوشش کی جائے کہ
جو کچھ کہا جارہا ہے، وہ خیرخواہی کے جذبہ سے کہا جارہاہے خود غرضی
وخودنمائی مطلوب نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے
ملفوظات میں اس پر بار بار زوردیا ہے کہ بات اچھی ہو، کہنے
کاانداز اچھاہو، نیز نیت خیرخواہی کی ہو تو یقینا
وہ بات متاثر کرے گی۔
اس لیے ان کے سامنے حق کے فضائل اور
اس کے خلاف کرنے کی صورت میں جو وبال آسکتا ہے عقلی ونقلی
ہر طرح سے رکھ دیا جائے، انبیائے کرام کی دعوت میں جابجا
قوم کو ”یاقومی“ اے میری قوم، اے میرے بھائی،
سے خطاب کیاگیا ہے، اس میں یہی راز پنہاں ہے کہ
مخاطب کو یقین آجائے کہ ہم سے گفتگو کرنے والا بھائی مان کر
مخاطب ہورہا ہے، اس سلسلہ میں اگر مخاطب قوم کے بزرگوں اور رشی منیوں
کی مقدس کتابوں سے ان امورکو ان کے سامنے رکھا جائے جو اسلام کے موافق ہیں
تو ”خیرخواہ“ ہونے کا تصور پختہ ہوجائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے شاہ روم کو جب دعوتی خط روانہ کیاتو اس میں جہاں اس کے
جاہ ومنصب کا لحاظ رکھا، وہیں ایک متفق علیہ امر کا ذکر کرکے ان
کو قریب کرنے کی کوشش فرمائی۔
(۴) اعترافِ حق: اگر شرکاء کی
طرف سے کوئی حق بات آتی ہے تو اس کا بھرپور استقبال کیا جائے
اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اعتراف کیاجائے، اس سے قبولِ
حق کے لیے ماحول سازگار ہوتاہے۔
(۵) مذاکرہ اگرکسی وجہ سے
ناکام ہوجائے توایسے موقع پر سنجیدگی ومتانت کا مظاہرہ کیاجائے،
بے جا الزام تراشی سے احتراز کرتے ہوئے لکم دینکم
ولی دین کا سہارا لے کر ساری باتوں کو انگیز کیا جائے؛ تاکہ آیندہ
کے لیے موافق حالات پیدا ہوسکیں۔
ان امور کی رعایت سے ان شاء
اللہ مذاکرہ وتبادلہٴ خیال کا خاطرخواہ فائدہ برپاہوسکتا ہے۔
ورنہ مذاکرے ہوتے رہیں گے؛ لیکن مسئلہ جہاں کا ہے وہیں رہے گا،
ہر شخص اس صور میں پھونک مارنے کے لیے بے تاب ہوگا؛ مگر اس پھونک سے
دنیا تو کجا ارد گرد میں گونج پیدا نہ ہوسکے گی۔
$$$
---------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:101 ، جمادی
الاخری 1438 ہجری مطابق
مارچ 2017ء